ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ میں ہم محض ارادے سے داخل ہوئے تھے کہ اس بلند وبالا عمارت کی چھت پر کھڑے ہو کر نیویارک کے نظارے سے دل شاد کریں گے مگر یہاں تو ہماری ملاقات چھریرے بدن اور لمبوترے چہرے والے سانولے سلونے نوجوان سے ہو گئی۔ یہ وکرم تھا۔ ایک بھارتی نوجوان۔ اسے ہمیں پاکستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر بریفنگ دینا تھی۔ وکرم اور اِس کی پاکستانی معاون نے میز پر دستاویزات کے ڈھیر لگا دیے جن میں زندگی کے مختلف شعبوں میں پاکستان میں رونما ہونے والے ایسے واقعات کا ثبوتوں کے ساتھ ذکر تھا جن کی وجہ سے انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ اے فور سائز پر چار رنگوں میں چھپی ہوئی ان کتابوں میں ایک کتاب ایسی بھی تھی جس میں قانون ناموسِ رسالت ﷺ ، اس کے اثرات ، خاص طور پر انسانی حقوق پر اس کے اثرات کا تفصیل سے ذکر تھا۔ امریکا کی اس معروف عمارت کی چونتیسویں منزل پر پیش آنے والے اس واقعے کا ذکر اس تاثر کے ثبوت کے طور پر کیا جا رہا ہے کہ اس قانون کے بارے میں دنیا کا ایک خاص حصہ منفی اندازِ فکر رکھتا ہے اور جب موقع ملتا ہے، اس میں جوہری ترامیم یا مکمل تبدیلی کے لیے حکومتِ پاکستان پر دباوء ڈالنے سے نہیں چوکتا۔ اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ بہت سے عالمی ادارے اور کئی ممالک اس قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والوں کے سر پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور موقع ملتے ہی ایسے لوگوں کو قانون کی گرفت سے نکال کر کسی محفوظ پناہ گاہ تک پہنچا دیتے ہیں۔
پاکستان میں موجود ایک خاص طبقے اور بیرونِ پاکستان اس کے فکری ہم خیالوں کی موجودگی اور پاکستان کے داخلی معاملات میں ان کی مداخلت ِبےجا کو حقیقت ِ واقعہ کے طور پر تسلیم کر لینے بعد اب یہ سوال توجہ کا طالب ہے کہ کیا فیصل آباد کی اس مسیحی خاتون کا معاملہ اس صورت ِحال سے مطابقت رکھتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس خاتون کے معاملے میں دینی اور قانونی اعتبار سے وہ کون سے قانونی پہلو ہیں جو موجودہ صورتِ حال میں نظر انداز ہو گئے ؟
پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ آسیہ نامی خاتون کے معاملے میں ہیومن رایٹس واچ ہو یا دنیا کی دیگر طاقتیں، وہ یقینی طور پر دل چسپی رکھتی ہیں اور کھلے یا چھپے جیسے ممکن ہو، اس میں مداخلت کریں گی یا کر رہی ہوں گی لیکن ضمنی سوال یہ ہے کہ اس باب میں ہماری ذمہ داری کیا صرف یہی ہے کہ اس عورت کو ملعونہ قرار دے کر اس کا دھن بچہ کو لہو میں ہی پلو کر ہی دم لیں یا دینِ مبین نے بھی اس سلسلے میں ہمارے کاندھوں پر کچھ ذمہ داری عائد فرمائی ہے؟
دینِ حنیف کی طرف سے اہلِ اسلام پر عائد ہونے والی ذمہ داری کا موضوع آج کی صورت ِحال میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے جس کی طرف توجہ دلانے سے قبل ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملے کے قانونی پہلو پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس مقدمے میں ماخوذ غیر مسلم خاتون کو بے قصور قرار دے کر بری کرنے کا حکم صادر کیا تو یہ خبر ملک کے طول و عرض میں کمال درجے حیرت اور صدمے کی گہری کیفیت کے ساتھ سنی گئی۔ اس کے نتیجے میں امن و امان کے جو مسائل پیدا ہوئے، وہ الگ، احتجاجی تنظیموں کی قیادت کی طرف سے کہا گیا کہ انھیں یہ فیصلہ ہرگز قبول نہیں۔ یہ مو قف بہت حد تک قابل قبول ہو سکتا ہے کیوں کہ ایسی صورت میں قانونی چارہ جوئی کی گنجائش موجود ہے لیکن یہ راستہ اختیار کرنے سے پیشتر احتجاج کی راہ اختیار کی گئی جس سے کاروبار زندگی بڑی حد تک معطل ہو گیا۔
پھر فیصلہ کرنے والے ججوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا گیا، اس کے ساتھ ہی فوج کے سربراہ کو بھی لپیٹ میں لے لیا گیا۔ یہ طرز ِعمل کس جانب اشارہ کرتا ہے؟ تھوڑا سا بھی ٹھنڈے دل سے معاملے پر غور کیا جائے تو آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اس طرح کے مطالبات صرف اسی صورت میں ظہور میں آ سکتے ہیں، اگر ان کے لیے آواز بلند کرنے والے ریاست کا شعور نہ رکھتے ہوں یا ریاست اور اس کے قائدے قوانین کو مسترد کرتے ہوں یا ذہنی طور پر ایسی کیفیت میں ہوں کہ انھیں بہت واضح طور پر نظر آنے والی حقیقتیں دکھائی ہی نہ دیتی ہوں۔ کوئی معاشرہ یا اس کی ایک قابل لحاظ تعداد اگر ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے نتیجے میں معاشرے کا امن اور سکون برقرار رہ سکے گا یا تباہی کے راستے پر چل نکلے گا؟ فیصلوں کے مجاز اداروں کو مسترد کرتے ہوئے ہمیں اس نتیجے پر ضرور غور کر لینا چاہئے۔
رہ گیا معاملے کا دینی پہلو، یہ پہلو قانونی پہلو سے بھی زیادہ اہم ہے، اس لیے کہ اس معاملے میں کوئی کمی بیشی ہو گئی تو براہِ راست دین اور ایمان ہی متاثر نہیں ہو جائے گا بلکہ آخر ت بھی برباد ہو جائے گی۔ اس تمہید کے بعد اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دین کا مجموعی مزاج کیا ہے؟ کیا دین کا مزاج یہ ہے کہ جس کسی سے، خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوِ کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے ملعون قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، رائے عامہ کو اس کے خلاف بھڑکا دیا جائے اور مختلف عقائد رکھنے والے طبقات کے درمیان مستقل طور پر دوریاں پیدا کر دی جائیں۔ اس معاملے میں ہمیں اسوہ رسولﷺ سے واضح رہنمائی مل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں مشکوٰة شریف کی ایک حدیث ہمارے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ نو باتوں کا حکم کے عنوان سے معروف اس حدیث کے اس صورت حال سے متعلقہ حصے پیش خدمت ہیں:
”جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں، جو مجھے محروم کرے میں اسے دوں اور جو زیادتی کرے، میں اسے معاف کروں“۔
اس استدلال کے جواب میں اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ اصول ناموسِ رسالتﷺ کے معاملے پر منطبق نہیں ہوتے، بہ ظاہر یہ اعتراض درست ہو سکتا ہے لیکن فقہ حنفی ( جس کی پیرو ہماری غالب اکثریت ہے) کہتی ہے کہ اس شاتم رسولﷺکے لیے موت کی سزا ہے جو مسلمان ہے، غیر مسلم کے معاملے میں عدالت موقع محل دیکھتے اور حکمت سے کام لیتے ہوئے کوئی فیصلہ کرے گی۔ فقہ حنفی سے ملنے والی اس رہنمائی کی حکمت سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام لوگوں کو جوڑنے اور قریب کرنے کا مزاج رکھتا ہے نہ کہ دور کرنے کا۔ یہ اصول آسیہ کے معاملے میں منطبق کر کے دیکھنے سے آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس واقعے میں جو اور جتنی دھول اڑی ہے، اس نے صرف مسیحی برادری ہی نہیں بلکہ دیگر غیر مسلم برادریوں کو بھی اسلام اور مسلمانوں سے دور کر دیا ہے۔ اب کون کسی مسیحی یا کسی دوسرے غیر مسلم کو دین کی دعوت پیش کر سکے گا اور کون اس کی بات پر کان دھرے گا؟
حنفی فقہا کی رائے اور اوپر بیان کی گئی حدیث پاک کی روشنی میں دین کا مزاج واضح ہو جاتا ہے اور یہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اس معاملے پر وطن عزیز کے طول و عرض میں جو کچھ رونما ہو رہا ہے، اس سے دین کی کیا خدمت ہو رہی ہے۔ اس طرز عمل کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستانی معاشرے کی نئی نسل، خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ نوجوان اس کی وجہ سے دین ہی سے دور ہو جائیں اور دینی شخصیات سے اظہار برات کر دیں جس کے مظاہر اب عام نظر آتے ہیں۔ اس طرز عمل کا جو تیسرا نتیجہ بر آمد ہو سکتا ہے، اس کے تصور سے بھی خوف آنا چاہئے کہ بلا سوچے سمجھے دینی احکام کی من مانی تعبیر و تطبیق، ریاست اور ریاستی اداروں، خاص طور پر عدالت کا کام اپنے ہاتھ میں لے لینے کے نتیجے میں بالآخر ہمارا نظام اس ماڈل کی طرف جا نکلے گا جس کے مظاہر مذہبی اور سیاسی معاملات میں ان دنوں وسط ایشیائی ریاستوں میں نظر آتے ہیں۔ دین کی من مانی تشریحات اور اس کے نام پر تشدد کو اسی طرح فروغ ملتا رہا تو کسی کو حیرت نہ ہونی چاہئے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان میں ایسے عناصر کو بہر صورت زور پکڑنے کا موقع مل جائے گا اور عوام کی اکثریت اس کی حمایت کرنے پر مجبور ہو گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ :
۱۔ دینی طبقات کے سمجھ دار عناصر محض مقبولیت (یاووٹ) کے لالچ یا منفی پروپیگنڈے کے خوف میں غیر منطقی انداز فکر رکھنے والے طبقات کی پیروی سے گریز کریں اور غور و فکر کر کے ایسا انتظام کریں کہ فتوے باز و ںنیز لٹھ ماروں پر عقل و خرد رکھنے والے لوگ غالب آسکیں۔
۲۔ ناموس رسالتﷺ کے انطباق کے معاملے میں دین ِ مبین کی منشا پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کے لیے پیغام پاکستان کی طرح ایک وسیع تر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ، اسلامی نظریاتی کونسل اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی اسلامی ریسرچ اکیڈمی مل کر علمائے کرام کو ایک جامع پلیٹ فارم مہیا کر سکتے ہیں۔
قانونِ تحفظ ِ ناموس رسالتﷺ ہی نہیں، ناموسِ رسالتﷺ کے تحفظ کا یہی ایک راستہ ہے، باقی سب راستے تباہی کی طرف جاتے ہیں نیز ان عناصر کو قوت عطا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں جن کے ایک نمائندے سے ہماری ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی ۴۲ ویں منزل پر ملاقات ہوئی تھی۔