کامیاب لوگوں کی زندگی قابلِ رشک بھی ہے، قابلِ توجہ بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ اس تحریر میں اعلیٰ تاریخی شخصیات کے کارہائے نمایاں پر بات کرنے کی بجائے عام لوگوں کی مثالوں پر غور کیا جائے گا جو اپنی ذاتی یا پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کی دوڑ میں اپنے ہم عصروں سے دو قدم آگے رہتے ہیں۔ ہم کامیابی کی قیمت پر بھی بات کریں گے۔ کامیابی اور ناکامی کے تصوّرات سے جڑے ہوئے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی جسارت بھی کریں گے۔ یہ باتیں عام لوگوں کی زندگی کی بظاہر معمولی کامیابیوں تک محدوں رہیں گی۔ تاریخ کا دھارا بدلنے والے کردار، دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے والے یا غیر معمولی ایجادات کرنے والے ہمارا موضوع نہیں۔ ہمارا مخاطب ایک عام قاری ہے۔ ایک ایسا شہری کہ جس کے خوابوں اور منصوبوں کی نوعیت ذاتی اور عملی ہے۔ عالمی سطح پر تاریخی مہم جوئی جیسے مسائل کا شکار نہیں ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم بات آگے بڑھائیں ایک اہم نکتہ کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ کامیابی یا ناکامی ایک Variable phenomenon ہے۔ کامیابی یا اصل کامیابی کیا ہے اور کس درجہ کامیابی سے غیر متنازعہ کامیابی شروع ہوتی ہے وغیرہ پر ایک سے زیادہ آراء ہو سکتی ہیں۔ اس نکتہ کو مزید الجھائے بغیر ہم اس کی سادہ سی وضاحت یوں کریں گے کہ اس ’’کامیابی‘‘ سے مراد، جیسا کہ شروع میں عرض کیا جا چکا ہے، نجی نوعیت کی مادی کامیابی ہے۔ ایسی کامیابی جو باقاعدہ Tangible ہو یا بعض صورتوں میں Visible ہونے کے ساتھ آسانی سے Measurable بھی ہو۔ یہاں کامیابی سے مراد خوشحالی اور مالی آسودگی ہے۔ ’’کبھی کے دن بڑے کبھی کی رات‘‘۔ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ حالات میں تبدیلی ایک مستقل عمل ہے۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ عروج کو زوال اور پستی کو کمال ملنا اچنبے کی بات نہیں۔ عروج میں عاجزی اور خود احتسابی کی نعمتیں میسر ہوں تو اس کا قیام اور تسلسل زیادہ لمبا عرصہ برقرار رہتا ہے۔ عروج سے براہِ راست زوال کی بجائے قدرے کم عروج یا قدرے کم زوال کی گنجائش نکل آتی ہے۔ وضع داری کی صفت موجود ہو تو زوال میں بھی سفید پوشی کا بھر م قائم رہتا ہے۔
اچھے دنوں میں بھرپور احساسِ شکر گذاری اور اپنے افعال و کردار میں مناسب احتیاط ضروری ہے۔ دعوئوں اور طعنوں سے مکمل محفوظ رہنا لازمی ہے۔ دعوے کے بعد پکڑ کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور کسی کو جس برائی یا کمتری کا طعنہ دیا جائے وہ عادت یا صورت خود میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف ایسے افراد جو پستی کا شکار ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ قدرے کم کامیاب ہیں اور اپنی زندگی سے خوش نہیں ان کے لیے سب سے ضروری ہدایت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو appreciate کرنے کی عادت ڈالیں۔ اگر انسان اپنے آپ کو appreciate کرے گا۔ اپنے کام کو پسند کرے گا۔ اپنے آپ سے خوش اور مطمئن ہو گا تو پھر ہی وہ اپنے خالق حقیقی کا اصل شکر گذار بندہ بنے گا۔ اور اُس کے ساتھ اُس کا تعلق مضبوطی سے جڑے گا۔ خالق کے ساتھ مخلوق کے مضبوط رشتے کی صورت میں بہترین انسانی اوصاف جیسے شکر گذاری، امید اور صبر جنم لیں گی جو کہ کامیابی کی کنجیاں ہیں۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو ایک ناکام آدمی کو مایوسی کی دلدل سے نکال کر عمل اور امید کی راہ دکھاتے ہیں۔ انسان میں Self-Reliance اور Will to fight پیدا کرتے ہے۔ ایک تھکا ماندہ ہارا ہوا انسان جو اپنے ہاتھوں میں سردئیے مایوسی کے عالم میں جھکا ہوا ہوتا ہے۔ اعتماد سے اٹھا سکتا ہے۔ اپنے بازو ہوا میں بلند کر سکتا ہے۔ مٹھی بھینچ کر مکّا ہوا میں لہرا سکتا ہے۔ کمر باندھ کر میدان میں اُتر سکتا ہے اور کہتا ہے۔ I CAN, I WILL
میں نے نوکری پیشہ طبقے میں سے تین طرح کے لوگوں کو جائز ذرائع سے مادی خوشحالی حاصل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
- جو نہایت ایماندار ہوں۔
- نوکری کے ساتھ کوئی دوسرا کاوربار بھی اختیار کریں۔
- بچیّوں کے باپ ہوں۔
ایماندار سرکاری ملازم ایک خاص آزمائشی دور سے گذرتا ہے۔ یہ عرصہ کچھ سالوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ عام طور پر زندگی تنگ دستی کا شکار نظر آتی ہے۔ بنیادی ضرورتوں اور عام سی خوشیوں کی بھی گنجائش مشکل سے نکلتی ہے۔ افسری کا بھرم اور باوقار عہدے کی لاج رکھنا بڑی Careful Management ہے۔ اس دوران کچھ ترغیبات (Temptations) کو Resist کرنا ہی اصل خوبصورتی ہے۔ بہت سے جلد باز اس مرحلہ پر ناکام ہوتے ہیں اور سرکار کے اپنے ساتھ ناروا سلوک اور حق تلفی کو جواز بنا کر فوری فائدے کی اصل حقیقت جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس کو قبول کر لیتے ہیں۔ اس طرح یہ کچھ عارضی راحتوں کا سامان تو کر لیتے ہیں لیکن ایک صبر آزما امتحان کے بعد روح افزاء کامیابی کی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسے اشخاص جو اس نازک موقع پر ثابت قدم رہتے ہیں کامیابی اُن کے استقبال کی تیاریاں شروع کر دیتی ہے۔
اس کے علاوہ وہ لوگ ہیں جو دستیاب وقت کا بہتر مصرف ڈھونڈتے ہیں۔ بچت او رسرمایہ کاری کے ذریعے بتدریج آسودگی کی راہ اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ ایک عام صورتِ حال ہوتی ہے اس لیے اس کو وضاحت سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
تیسری جماعت بڑی دلچسپ ہے۔ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں۔ یہ صرف ایک مقولہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک رہنما اصول معلوم ہوتا ہے۔ بیٹیوں کی کفالت کرنے والے باپ کے لیے رزق کے دروازے آسانی اور کشادگی سے کھلتے ہیں۔ مندرجہ بال سطو رمیں کامیابی یا جیت کی کوئی Theory یا Principle یا Law نہیں دیا جا رہا بلکہ صرف اپنے مشاہدے کی بنیاد پر خیالات کا جامع اظہار ہے۔ کامیابی کے موضوع پر بات Positivity پہ کچھ کہے بغیر ادھوری ہو گی۔ Positivity سے ہی ہمدردی مدد اور Empathy کے جذبات جُڑے ہوئے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ماحول Reciprocate کرتا ہے۔ جو کچھ آپ دنیا کو دیتے ہیں یا اپنے خیالات میں دینے کا قصد کرتے ہیں ویسا ہی زندگی کے کسی موڑ پر پلٹ کر آپ کو ڈھونڈتے ہوئے سیدھا آپ کے پاس آجاتا ہے۔ لوگوں کے لیے اچھا سوچنا چاہیے۔ حسد اور کینہ سے محفوظ رہنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ بدنی اور نفسیاتی صحت کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔ ایک مشہور سائنس دان جو کہ نوے سال سے زیادہ عمر میں سگریٹ نوشی کی شدید عادت کے باوجود ایک صحت مند زندگی گذار رہے تھے اُن سے پوچھا گیا کہ اس قدر اچھی صحت کا راز کیا ہے۔ اُن کا جواب تھا کہ میں حسد نہیں کرتا۔ حسد ایک فطری ردِّ عمل ہے لیکن یہ فرد کے عین مفاد میں ہے کہ Intelligently اس مسئلہ کو اپنی زندگی سے نکال باہر کرے۔ حسد کی آگ میں جلنے سے تعمیری خیالات کا بہائو توجہ اور کام میں لگن براہِ راست متاثر ہوتی ہے۔
ارے ہوئے لوگوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو فرار یا Escapism کی راہ چن لیتی ہے۔ یہ لوگ روزمرہ کی عام زندگی سے سامنا نہیں چاہتے۔ حقائق سے نظریں چراتے ہیں۔ کچھ اچانک مذہبی انداز اپنا لیتے ہیں۔ داڑھی بڑھا لیتے ہیں۔ عبادت میں مشغول نظر آتے ہیں۔ دنیا سے بے زاری کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ لوگ فرار کے لیے گہرے مطالعے یا ادب کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ لوگ افسانوں اور ناولوں کے کرداروں میں چھپنا چاہتے ہیں۔ پیشہ ورانہ ضرورت کی یا درسی کتابوں سے ان کی جان جاتی ہے۔ آزاد منش طبیعت کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور دنیاوی ترقی Career یا سود و زیاں کے معملات کوغیر اہم بلکہ حقیر قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
Law of attraction سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ اچھّے نتائج کے حصول کے لیے ایک ایسی سوچ اختیار کریں کہ جو آپ کی امید اور آپ کے اعتماد کی آئینہ دار ہو۔ مثبت سوچ اور پختہ اعتماد کامیابی کا زینہ ثابت ہوتے ہیں۔ ہارے ہوئے لوگوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو فرار یا Escapism کی راہ چن لیتی ہے۔ یہ لوگ روزمرہ کی عام زندگی سے سامنا نہیں چاہتے۔ حقائق سے نظریں چراتے ہیں۔ ایک خاص ذہنی کیفیت اختیار کر لیتے ہیں۔ کچھ اچانک مذہبی انداز اپنا لیتے ہیں۔ داڑھی بڑھا لیتے ہیں۔ عبادت میں مشغول نظر آتے ہیں۔ دنیا سے بے زاری کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد یہ واپس پرانی حالت میں آکر کوئی اور رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ اس سے ملتی جلتی ایک دوسری جماعت ہے کہ جس کے لوگ فرار کے لیے گہرے مطالعے یا ادب کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ لوگ افسانوں اور ناولوں کے کرداروں میں چھپنا چاہتے ہیں۔ پیشہ ورانہ ضرورت کی یا درسی کتابوں سے ان کی جان جاتی ہے۔ آزاد منش طبیعت کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور دنیاوی ترقی Career یا سود و زیاں کے معملات کوغیر اہم بلکہ حقیر قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
Escapismکے مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کو مسئلہ تسلیم کیا جائے۔ فرد اپنے آپ کو دھوکہ نہ دے۔ حقیقت کی دنیا میں واپس آ کر عملی مسائل کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کرے۔ ایک دوکاندار کے لیے ضروری ہے کہ وہ منڈی کے رجحانات پر نظر رکھّے نا کہ اردو ادب کی کتابیں آٹے دال کی بوریوں پر بکھیری ہوئی ملیں۔ ایک طالبِ علم اپنے Career کو پلان کرے اور جدید علوم کو سائنسی بنیادوں پر دریافت کرے۔ سچائی کا سامنا حقیقت پسندی اور مردانگی سے کرنا پڑتا ہے۔ جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا پڑتا ہے۔ بے رحم مقابلے کی اس دنیا میں Survival of the fittest ایک حقیقت ہے۔ لہو گرم رکھنے کے لیے جھپٹنا، پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا پڑتا ہے۔ مزاحمت کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ تخریب تعمیر کو جگہ دیتی ہے۔ زندگ کا سفر جاری رہتا ہے۔ امید اور قربانی کامیابی کا زادِ راہ بنتے رہتے ہیں۔ زندگی کا کاررواں آگے بڑھتا رہتا ہے۔
میں اگر ٹوٹ کر بکھر جائوں
کیا خبر اور بھی سنور جائوں