وطن عزیز میں خاندانی نظام تباہی کی طرف گامزن ہے جو معاشرے اور خاندان دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کی جانب سے خلع لینے کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہونے لگا ہے، روزانہ پندرہ سے بیس خواتین حصول طلاق کے لیے فیملی عدالتوں میں درخواستیں جمع کرواتی ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے طلاق کی شرح میں اضافے کی بڑی وجہ فریقین کے درمیان عدم برداشت ہے۔ برداشت جو کسی بھی رشتے کی بقاء کے لیے انتہائی لازم ہے وہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
یہ رویہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے، آج کا شادی شدہ جوڑا میاں بیوی بن کر زیادہ سوچتا ہے ماں باپ بن کر کم۔ ماں اور باپ جو خاندان کی بنیادی اکائی ہیں وہی اپنی ’’میں‘‘ سے نہیں نکلیں گے تو پھر رشتہ کسے بنے گا۔ نکاح کرنے کا مقصد صرف اپنی خواہشات کی تکمیل نہیں بلکہ معاشرتی زندگی کا فروغ بھی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب مرد و زن اپنے رشتے کی نوعیت اور دنیا میں اپنے اس کردار کی اہمیت کو سمجھیں گے۔
اس حوالے سے فیملی کورٹ کے وکلاء سے بحث کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ طلاق لینے والی خواتین میں ایسی عورتوں کی تعداد زیادہ ہے، جن کے پہلے سے تعلقات تھے یا پھر شادی کے بعد مرد، ان کی خواہشات کی تکمیل نہیں کر پائے۔ ان کے نزدیک شادی صرف بچے پیدا کرنے کا نام نہیں بلکہ ہر انسان کی کچھ رومانوی اور جنسی آئیڈلوجی بھی ہوتی ہے اور بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان پر قابو پا لیں یا خود کو اپنے پارٹنر کی سوچ کے مطابق ڈھال لیں ۔
ایسی خواتین کی جب شادی ہو جاتی ہے اور شادی کے بعد ان کی رومانوی خواہشات کی دنیا چکنا چور ہوتی ہے ۔ تب تک ان کے درمیان کسی تیسرے کی آمد تک معمول کی سمجھوتہ ایکسپریس چل رہی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں آبادی میں ہوشربا اضافہ بھی جاری رہتا ہے جس کی تعداد تین سے پانچ اور کہیں اس سے بھی زیادہ تعداد دیکھی گئی ہے۔ تبھی کسی تیسرے کی آمد سے خاتون محترمہ کی رومانوی دنیا جاگ جاتی ہے اور پھر سلسلہ سمجھوتہ کے تانے بانے بکھرتے چلے جاتے ہیں۔
میں نے ان حالات میں ممتا کو ہارتے اور عورت کو جیتتے دیکھا ہے جو یقیناً انسانیت کی بھی ہار ہے اور یہی صورت حال مردوں کے ساتھ بھی ہے ان کی بھی سمجھوتہ ایکسپریس اس وقت تک ہی پٹڑی پر رہتی ہے جب تک مرضی کی سواری نہیں ملتی ۔ آج کی عورت ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھ کر خود کو دامن کی چاندی سے بھی محروم کرتی جا رہی ہے، من چاہی دنیا یا ایک ساتھ سب کچھ پا لینے کی خواہش بھی اسے چھاؤں سے دھوپ میں لے آئی ہے ۔ سماج کی بنیادی اکائی، خاندان کو اگر مکمل تباہی سے بچانا ہے توپھر ناپید ہونے والے والوں، رویوں کو اعتماد اور محبت کی دھوپ لگوانا نہایت ضروری ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: طلاق: زحمت میں چھپی رحمت؟ —– رقیہ اکبر