کرایہ دار ہونے کے جہاں بے حساب نقصانات ہیں وہاں بہت سے فوائد بھی ہیں، سب سے اچھی بات یہ کہ محلہ داری نبھانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی، جہاں مالک مکان سے نوک جھونک ہوئ وہیں نئے مکان کی تلاش شروع، ہمارے گھر میں ہزاروں کتابیں اور سیکڑوں پودے بھی ہمارے ساتھ ایک مکان سے دوسرے مکاں میں منتقل ہوتے، ابو ان دونوں چیزوں کے لیے خاصے حساس تھے۔ چونکہ وہ کتاب کی اشاعت کا کام بھی کرتے تھے اس وجہ سے ایک ہی کتاب کی ایک سو کاپیاں ہوتیں ، عرب امارات پلٹ مالک مکان سے فساد کے بعد ہمیں ایک گھر دسویں ماہ ہی چھوڑنے کا نوٹس ملا ہڑبڑاہٹ میں ایک گھر ملا جو کراچی کے علاقے سیکٹر 11-بی نارتھ کراچی میں واقع تھا یہ علاقہ نئی کراچی اور سرجانی ٹاؤن جیسے غریب علاقوں سے نزدیک ہے اس لیے ان علاقوں کی نسبت 11-بی والے نسبتاً بہتر ہیں۔ 11- B کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں زیادہ تر نو دولتیے آباد ہیں ہمارے بہت سے نو دولتیے رشتہ دار بھی وہاں ہمارے پڑوسی بن گئے، روزانہ ہی کوئی ٹہلتا ہوا نظر آ جاتا ہم نے ان سب کو نارتھ کراچی کے ایلیٹ کا نام دیا، ان دنوں سعودیہ اور عرب عمارات سے لوگوں کے پاکستان واپس بھیجے جانے کا زمانہ تھا۔
پاکستان میں ایک خاص مسلک آڈیو کیسٹ اور لٹریچر کے زریعے پھیلا جا رہا تھا، ہر بات بدعت اور شرک کے ڈبے میں پیک کر کہ دفن کی جا رہی تھی۔ جنازہ ہونے پر اگر آپ فرطِ جذبات میں رو پڑیں تو مرحوم کا بیٹا یا بیٹی اپکو خاموش رہنے کی تلقین کرتے کہتے ہیں کوئی بات نہیں بیٹا یہ قدرتی عمل ہے سب کو ہی مر جانا ہے، it’s a natural process don’t cry !۔ پھر جنازہ بنا کتبے کی قبر میں د با کے گھر آکر بریانی کھانے اور اس کے ذائقہ پہ بات کی جاتی، ” یار خالو کے جنازے میں زیادہ مزے کی تھی اس بار مرچیں تیز ہیں”۔ اس قدر logical لوگوں سے یقینا آپ کسی قسم کی روحانی طاقت، جادو کا توڑ نظر اتارنے کہ حوالے سے بات کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن حیرت انگیز طور پر یہ تمام سعودیہ پلٹ لوگ ایک خاص مولانا صاحب کے بہت فین تھے۔
لڑکی کی شادی کے لیے وظیفہ، بچوں کی پیدائش اور تعلیم کیلئے تعویذ، یرقان ہونے پے گلے میں گنڈا، نظر لگنے پہ شیطانوں کے نام والے تعویذ کو بچے پہ مل کہ سات جوتے مار کر جلایا جاتا۔ اس معاملے میں سب کا ایکا اس وقت یہ سب بالکل بھی شرک نہیں ہوتا۔ سارے خاندان میں قبرستان والی مسجد کے مولانا صاحب کی اندھی محبت، انتہا تو یہاں تک کہ مولانا صاحب کا خاص کرتب جو کہ گرم کڑاہی میں تیل پکاتے وقت وہ اپنی ایڈھی اس تیل میں ڈبو کر کمر کے مساج کرتے اور خواتین اپنی کمر کا خوشی خوشی علاج کروانے جایا کرتیں، اور یوں ہم ان کے کرامات کہ ترانے سنتے چھ سال بعد اس محلے سے دوسرے محلے کوچ کر گئے۔
مثل مشہور ہے کہ برا وقت بتا کر نہیں آتا، ہم پے بھی آیا اور بہت دھوم دھام سے آیا۔ ایسے میں کہیں سے کسی ہمدرد نے قبرستان والی مسجد کے مولانا صاحب سے ملاقات کا مشورہ دیا، موصوف ایک سرکاری جامعہ کے پروفیسر ہیں اور کمرشلی اپنا آستانہ عالیہ اپنے سرکاری گھر سے ہی چلا رہے ہیں، تقریباً روز صبح کسی مارننگ شو میں دن میں یونیورسٹی، شام میں آستانہ عالیہ اور پھر دنیا بھر سے آن لائن چندہ مہم۔
جب ہم انکے آستانے میں پہنچے تو انہوں نے قینچی اور کتاب ایک ڈوری سے بندھی ایک خاص طریقہ سے حرکت دی اور کوئ دعا اور تعویذ تھما دیا، گھر آتے ہی موبائل پر میسج نظر آیا کہ مولانا صاحب نے کسی واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا ہے، اس گروپ میں ہر وقت مولانا صاحب اور ان کی اہلیہ مختلف لوگوں کے لیے ذکاوت و خیرات مانگتے، پھر ان لوگوں کی تصاویر بھی شیر ہوتی، میں ایک بچے کی لیگل ایڈ کے لیے کام کر رہی تھی، بچے کی ضمانت منظور ہو گئی تھی لیکن پیسے کا انتظام نہ ہو سکا تھا، مجھے اچانک خیال آیا کیوں نہ مولانا صاحب والے گروپ سے رابطہ کیا جائے، میں نے اس بچے کا مسئلہ اور اسکی والدہ کا اکاؤنٹ نمبر اور موبائل نمبر اس گروپ میں بھیجا، دس منٹ کے بعد میں اس گروپ سے باہر تھی۔ یہ میرے لیے حیرت انگیز تجربہ تھا۔ دو ماہ سے میں لاکھوں روپے چندہ جمع ہوتے دیکھ رہی تھی اور صرف پچاس ہزار کی بات پہ میں باہر بنا کچھ بتائے۔
آج شام ٹی وی پہ فیملی پلاننگ کے اشتہار میں ان مولانا صاحب کو دیکھا تو اپنے نارتھ کراچی کے ایلیٹ اور مولانا صاحب کا آستانہ اچانک یاد آ گئے۔ دونوں کی خاص بات یہ ہے کہ انکی مذہبیت اور انکا مال سب کچھ صرف انکے ہی فائدے کے لیے ہے۔