۱۱ ستمبر کے واقعہ کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا، جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا، عمومی طور پر تمام پاکستانیوں اور خصوصی طور پر پشتون قوم میں غصے اور غم کی شدید لہریں پیدا ہوئیں، پشتون قوم میں شدت کے ساتھ ردعمل کا جذبہ پیدا ہونا فطری تھا کیوں کہ وہ پاکستان میں موجود دیگر قوموں کے مقابلے میں افغانستان کے لسانی اور مذہبی اعتبار سے سب سے زیادہ قریب تھے۔
انہی حالات میں جب افغانستان میدان جنگ بنا ہوا تھا، یہاں ایف ایم ٹیکنالوجی پہلی بار متعارف ہو رہی تھی، ایف ایم ٹیکنالوجی ایک طوفان کی طرح ہمارے مدارس اور مساجد کا رخ کر رہی تھی، ہمارے علماء عوامی جذبات کو مذہبی تعلیمات کے رنگ میں رنگ کر پیش کرتے اور عوامی جذبات بھڑکاتے، صوبے میں مذہبی جماعتیں مسند اقتدار و اختیار پر متمکن تھے، اس لئے ہمارے ان علماء کو عوامی جذبات بھڑکانے کے لئے پوری طرح آزادی میسر رہی۔
انہی علماء کی کوششوں سے جو لاوا تیار کیا جا رہا تھا اسی نے پرامن وادی جنت نظیر سوات کو اپنا مرکز بنالیا، وادی سوات سے ایک ایسا شخص سامنے آیا جو شرعی وضع قطع اور خوبصورت داڑھی کا مالک تھا، وہ متاثرکن لب و لہجے کا مقرر و خطیب تو نہیں تھا لیکن اردگرد کے حالات نے مذہبی رجحان رکھنے والوں کے لئے ان کے بیانات و تعلیمات میں بے پناہ دلکشی پیدا کردی تھی، اس نے اپنی تبلیغ و تشہیر کے لئے ایف ایم ٹیکنالوجی کا موثر استعمال کیا، تھوڑے ہی عرصہ میں ان کی آواز وادی کے گوشے گوشے تک پہنچ گئی۔
وہ مذہبی جن کی فکری سطح مدرسانہ تھی اس میں یقین رکھنے لگے کہ یہی شخص نجات دہندہ ثابت ہوسکتے ہیں، وادی سوات میں افغانستان کے طرز پر عالم اسلام کے لئے ایک ایسی مثالی شرعی حکومت قائم ہوسکتی ہے جو نہ صرف عسکری اسلام کا مضبوط قلعہ ثابت ہوگی بلکہ یہ حکومت استحصال کا شکار طبقات کو اوپر لانے میں بھی معاون ثابت ہوگی۔
ان کی باتیں عام فہم اور سادہ ہوتی تھیں، وادی کے لوگ ان کی ہر بات کو حکم کا درجہ دے کر تعمیل کرتے، ابتداء میں ہم نے ان کی تعلیمات کی تعمیل کے ایسے مظاہر دیکھے کہ حیران ہوتے رہے، ریاست سے ان کے جو بھی مطالبات تھے وہ وادی کے لوگوں کی متفقہ آواز تھی، کثیر تعداد میں لوگ ان کی اواز پر لبیک کہتے رہے، اسی طرح جب وقت ان کی اصل صورت سامنے لایا تو بہت دیر ہوچکی تھی، لوگ دھوکہ کھا گئے، وہ بنے بنائے ماحول میں خالی خولی نعروں سے ایک ایسے طوفان میں پھنس گئے جس سے نکلنے میں اُن کو بہت وقت کے ساتھ ساتھ سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
تحریک نفاذ شریعت محمدی کی طرح پشتون تحفظ موومنٹ بھی پشتون قوم کو اپنے اصل مسائل کے حل کی راہ میں جاری جدوجہد سے ہٹائے گی، یہ تحریک بھی پشتون قوم کو ایسے بے پناہ مسائل میں پھنسائے گی جن سے نکلنے کو عشرے درکار ہوں گے
آج اسی شخص کی طرح ایک اور شخص سامنے آ رہا ہے جو پشتون قوم کو منتشر کر رہا ہے، ان کی باتیں بھی سادہ اور عام فہم ہیں، یہ بھی ریاست کے اداروں سے ٹکر لینے کے لئے ایک متحارب فکر کی تبلیغ و ترویج کر رہا ہے، یہ بھی خطے کے جنگی حالات اور واقعات کو اپنے حق میں استعمال کر رہاہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہ شخص وزیرستان سے آیا ہے اور وہ شخص سوات سے سامنے آیا تھا، اِن کے پاس سوشل میڈیا ہے اُن کے پاس ایف ایم ریڈیو تھا، وہ عوامی جذبات بھڑکانے کے لئے مذہب کا سہارا لے رہا تھا، یہ عوامی جذبات بھڑکانے کے لئے لسانیت سے توانائی حاصل کر رہا ہے، اُن کے سر پر کالی پگڑی تھی، ان کے سر پر مخصوص قسم کی ٹوپی ہے۔
دونوں کے مقاصد بھی ایک سے ہیں، پہلے شخص کی اصل صورت تو ہم دیکھ چکے ہیں دوسری کی اصل صورت ان کے برپا کئے ہوئی تحریک کے نتائج کی صورت میں ہم نے بھگتنے ہیں، تحریک نفاذ شریعت محمدی کی طرح پشتون تحفظ موومنٹ بھی پشتون قوم کو اپنے اصل مسائل کے حل کی راہ میں جاری جدوجہد سے ہٹائے گی، یہ تحریک بھی پشتون قوم کو ایسے بے پناہ مسائل میں پھنسائے گی جن سے نکلنے کو عشرے درکار ہوں گے، پشتون قوم کا مسلہ سیکورٹی کے قومی اداروں سے باہم دست و گریباں ہونا نہیں ہے، پشتون قوم کو سیکورٹی اداروں کے فراہم کردہ کس قدر پرامن ماحول میں اپنی تعمیر و ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہے۔
ادارہ کا مصنف کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں۔