بالی ووڑ کے ہدایت کار ملن لتھریا کی فلم ’’بادشاہو‘‘ بھارت میں ایمرجنسی زمانے کے دوران جے پور کی رانی گیتانجلی کے خزانے کی خفیہ منتقلی پر بنائی گئی ہے۔ اداکار اجے دیوگن کا اس فلم میں تکیہ کلام ہے کہ ’’اپنا ایک ہی اصول ہے، زندگی کے چار دن اور آج ہے چوتھا‘‘۔ یہ فقرہ وہ تب بولتے ہیں جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ کیا وہ خطرے والا کام کرسکتے ہیں۔اجے دیوگن کا یہ جملہ کشمیریوں کی اجتماعی زندگی کا اشاریہ معلوم ہوتا ہے۔ ’’زندگی کے چار دن، آج ہے چوتھا۔‘‘ فوجی یلغار، افراتفری، ہلاکتیں، خوف، قدغنیں، ظلم و جبر اور سیاسی غیر یقینی کے بیچ کشمیری گویا ایسے ہی جی رہے ہیں، ’’زندگی کے چار دن، آج ہے چوتھا۔‘‘ تاجر جب اپنی تجارت کا منصوبہ بناتا ہے تو اسی حساب سے، کوئی شخص بچوں کی شادی کا ارادہ کرے تو اسی اصول پر، کوئی نوجوان کوئی کاروبار شروع کرنا چاہے تو اس کے حواس پر لٹک رہی حالات کی تلوار اسے یہی کہتی ہے، ’’زندگی کے چار دن، آج ہے چوتھا۔‘‘ کشمیریوں کے لئے ہر دن چوتھا دن ہے۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق جب نوجوان تصادم کی جگہ مظاہرہ کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ فوج یا فورسز گولی مار دیں گے، لیکن اسے معلوم ہے کہ ’’زندگی کے چار دن، آج ہے چوتھا۔‘‘ایسا لگتا ہے کہ کشمیری نوجوانوں کے اندر جانفشانی کے فطری جذبے کے بے دریغ اظہار سے فوجی جنرلوں کے سینوں پر میڈل چمک رہے ہیں اور والدین کے سینے چھلنی ہورہے ہیں۔نوجوانوں کی شجاعت اور عزیمت کو حکومت گمراہی، تحریکی حلقے مزاحمتی جذبہ اور عدم تشدد کے حامی لاحاصل جنون کہتے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں سوچتا کہ آخر اس فطری قوت کا استعمال بااعتبار نتیجہ ہمیں کس طرف ہانک رہا ہے۔
جب کسی قوم پر یہ بات واضح ہوجائے کہ زندگی کے چار ہی دن ہیں، اور اسے بار بار یہ احساس دلایا جائے کہ آج اس کا چوتھا دن ہے، تو وہ نیوکلیائی ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک بن جاتی ہے۔ بلاشبہ یہ رویہ قوم کو قربانیوں کے اتھاہ سمندر میں دھکیل دیتا ہے، لیکن غورطلب بات یہ ہے کہ بقیہ تین دن اس قوم سے چھینے گئے اور چوتھے دن وہ یہ اعلان کرنا چاہتی ہے کہ یہ آخری دن ہی سہی لیکن اس کا اپنا دن ہے۔مسلہ یہی ہے۔ نئی دلی اور اس کی وفادار انتظامیہ اسی میں خوش ہے کہ کشمیریوں کا ہر دن زندگی کا آخری دن ہی ہو، تحریکی قیادت چونکہ بڑے فیصلے لینے سے عاری ہے، وہ بھی اس بات پر ہی قانع ہے کہ ’’آج چوتھا دن ‘‘ ہے۔
حساس عوامی حلقوں کے لئے چیلنج یہی ہے، کہ وہ گزرے ہوئے تین دنوں کے زیاں پر مغزماری کریںیا اس سوال کو موضوع بحث بنائیں کہ ہم چوتھے دن کیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ زمانے گئے جب بیانات میں ’’عنقریب‘‘ کا لفظ ہوتا تھا، ’’منزل قریب ہے‘‘ کی یقین دہانیاں ہوتی تھیں، ’’فیصلہ کن مرحلہ‘‘ کا دعویٰ ہوتا تھا۔ اب ایک مجرد بیانیہ مستعمل ہے، ’’زندگی کے چار دن، تین گئے، آج چوتھا ہے۔‘‘ اسی لئے اب یقین دہانیاں یا دعوے نہیں بلکہ ’’کرو یا مرو‘‘ کے پیمان باندھے جاتے ہیں۔ یقین سب کو ہوچلا ہے کہ ’’آج چوتھا دن ہے‘‘، لیکن آج ہمیں کیا کرنا ہے، اس پر اجماع نہیں پایا جاتا۔ قربانیاں بے دریغ دی جارہی ہیں، قبرستان آباد ہو رہے ہیں، فوجیں دندنا رہی ہیں، پولیس بے قابو ہے، حکومت جابر ہے اور قیادت محصور ہے۔عام لوگوں کے دل مسلسل ظلم و ستم سے زخمی ہیں۔ متاثرین در د سے کراہ رہے ہیں، اور پوری قوم کرب میں مبتلا ہے۔
گزشتہ دنوں مزاحمتی رہنما محمد یاسین ملک نے سول سوسائیٹی سے اپیل کہ وہ نئی راہوں کی تلاش میں قیادت کی مدد کریں، آسیہ اندرابی نے قیادت سے کہا کہ قوم کی درست سمت میں رہنمائی کی جائے۔ غور کیجئے، ان باتوں کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ اس کا مطلب ہے کہ کچھ سوچنے کی ضرورت ہے، مشاورت کی ضرورت ہے، فکری محاسبہ کی حاجت ہے، طریقہ کار پر نظرثانی درکار ہے۔کیونکہ قربانی دینے والے کے لئے آج کا دن چوتھا ضرور ہے، لیکن اجتماعی سطح پر رویہ کچھ اور ہے۔ ہلاکتوں کے خلاف لوگ یکسو ہوکر ماتم کرتے ہیں، کاروبار ترک کرتے ہیں، لیکن اندر ہی اندر جو سوال ذہنوں کو بوجھل بنائے ہوئے ہے وہ یہ ہے: اگر واقعی یہ چوتھا دن ہے تو سب لوگ کہاں ہیں۔ اگر نہیں ہے تو آبادی کا ایک حصہ مائل بہ مرگ کیوں ہے؟
1990کی دہائی کے اواخر میں جب سربیاکے ظالم حکمران سلوبودان ملاژوچ کے خلاف عوامی سیلاب سڑکوں پر اُمڈ آیا تو فوجی کمانڈر نے سپاہی سے کہا کہ مظاہرین پر فائرنگ کرو، سپاہی نے حکم کی تعمیل سے انکار کیا۔ افسر نے وجہ پوچھی تو سپاہی بولا: ’’مجھے یقین ہے کہ ہجوم میں میرے بیوی بچے بھی ہونگے‘‘۔ عوامی تحریکیں حکمرانی کے سٹرکچر پر اخلاقی یلغار کرتی ہیں اور پھر سپاہی سپاہی نہیں رہتا بلکہ تحریک کا سٹیک ہولڈر بن جاتا ہے۔پھر یقینا وہ چوتھا دن ہوتا ہے، اور وہ چوتھا دن فیصلہ کن دن ہوتا ہے۔
ہمارے تین بڑے مسلے ہیں۔ اول تو یہ کہ عسکری سطح پر جو کچھ ہورہا ہے، اس کے محرکات اور سود و زیاں کا احاطہ کیا جائے۔ پہلے صرف عسکریت پسندوں کو ’’دہشت گرد‘‘ کہا جاتا تھا، اب حالات ایسے بن پڑے ہیں کہ پوری آبادی کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔اس سب سے دلی میں کس کے نظریات کی آبیاری ہورہی ہے، اور بھارتی عوام کے ذہنوں میں کیا راسخ کروایا جارہا ہے۔ ان حالات سے کیسے ڈیل کرنا ہے؟ یہی کام قیادت کا ہوتا ہے۔ قیادت فیصلے لینے کے بعد فراخدلی کے ساتھ فیصلوں کے رد و قبول کی بحث کا احترام کرتی ہے۔ آسیہ اندرابی نے نہایت نازک وقت پر قیادت کو قیادت کا فریضہ نبھانے کے لئے کہا ہے۔ دوسرا مسلہ حکمرانی کے سٹرکچر میں اخلاقی سیندھ لگانے میں ناکامی کا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کئی پولیس اہلکار وں نے مسلح گروپوں میں شرکت کی ہے، لیکن مسلہ بڑے پیمانے کے شفٹ کا ہے۔ کیا کوئی پولیس والا مظاہرین پر فائرنگ کے حکم کا اُسی طرح منکر ہوسکتا ہے، جس طرح سربیا میں وہ فوجی ہوا تھا؟ اگر یہ سب نہیں ہورہا ہے، تو جو کچھ ہورہا ہے اس پر دوبارہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔تیسر ا مسلہ نتائج کا ہے۔بلاشبہ قربانیاں تحریک کو اخلاقی برتری دیتی ہیں، لیکن قربانیوں کا لامتناہی سلسلہ قوموں میں اُکتاہٹ اور تھکان پیدا کرسکتا ہے، جس کا اظہار کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ تحریک کو سماجی تقدس حاصل ہے۔ قربانیوں کی نہ صرف حفاظت قیادت کا فریضہ ہے بلکہ ان قربانیوں کو نتیجہ خیز بنانا بھی قیادت کے ذمے ہوتا ہے، تاکہ قربانیوں کی اخلاقی برتری بنی رہے۔ زندگی چار دن کی سہی، چوتھے دن کو نتیجہ خیز کیسے بنائیں؟ یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے۔