بعض کتے بہت کتے ہوتے ہیں، انگریزی میں نہ بھونک سکیں تو انگریزوں کے لیے بھونکنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ ساری رات بھونکتے رہتے ہیں لیکن دن چڑھے بستی میں بہت سکون رہتا ہے کیونکہ آدھی رات کو یہ تھک ہار کر سوتے ہیں تو دوپہر سے پہلے اٹھ نہیں پاتے۔ سورج سر پہ آ جائے تو پریشان ہو کر اٹھتے ہیں اور اس کی روشنی سے جھنجھلا کر پھر سے بھونکنا شروع کر دیتے ہیں۔ معلوم نہیں انہیں روشنی سے ڈر کیوں لگتا ہے۔
ان کتوں کو خود پر بڑا زعم ہوتا ہے۔ یہ سارا دن بے شک کسی مقامی جوہڑ میں پڑے رہیں لیکن ان کا دعوی یہ ہے کہ یہ گلوبل قسم کے غیر مقامی کتے ہیں انہیں گلیوں کا کتا نہ سمجھا جائے۔
یہ کتے بڑے سمجھدار ہیں۔ انہیں خوب معلوم ہے کہاں دُم ہلانی ہے، کہاں دھیمے سروں میں بھونکنا ہے، کہاں بھونکتے ہی چلے جانا ہے اور کب بڑھ کر کسی کو کاٹ لینا ہے۔ کوئی راہ گیر انگریزی لباس پہن کر گزرے تو اس کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں، کوئی شلوار قمیص میں گزرے تو ہلکا ہلکا بھونکنے لگ جاتے ہیں، کسی کے ٹخنے ننگے نظر آ جائیں تو یہ غرانا شروع کر دیتے ہیں، کسی خاتون کی پنڈلیاں نظر آئیں تو دم ہلانے لگتے ہیں، کوئی با پردہ خاتون گلی سے گزرے تو بھنا کر اپنی ہی دم کو کاٹ کھاتے ہیں۔ کسی مولوی پر نظر پڑ جائے تو اتنا بھونکتے ہیں کہ بھونک بھونک کر بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ ہوش میں آئیں تو پھر بھونکنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہیں تو کتے لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم انسانیت پر بڑا یقین رکھتے ہیں چنانچہ شدت جذبات سے مغلوب ہو جائیں تو آپس میں ایک دوسرے کو کاٹ لیتے ہیں۔ لیکن چونکہ گلوبل ولیج کے کتے ہیں اس لیے اس پر نادم بھی نہیں ہوتے بلکہ بھونکتے ہیں کہ ہمارا جسم ہماری مرضی۔
یہ کتے کرنسی کی بھی پہچان رکھتے ہیں چنانچہ ان کے آگے کوئی ڈالر پھینک دے تو یہ اس ڈالر کو ہڈی سمجھ کر لپک کر اٹھا لیتے ہیں۔ جو ڈالر دیتا ہے یہ اس کے لیے کسی بھی وقت کسی پر بھی بھونک سکتے ہیں۔ کئی کئی دن یہ بلاوجہ بھی بھونکتے رہتے ہیں۔
اب ایک بڑا مسئلہ آن پڑا ہے، قندوز میں معصوم بچوں کا قتل عام ہوا ہے۔ قاتل مگر امریکہ ہے۔ گلوبل ولیج کے یہ کتے سوچ رہے ہیں کہ اب کس پر بھونکیں۔