ہندوستانی ناول نگار’’ارُوندھتی رائے‘‘ کے تازہ ناول’’بے پناہ شادمانی کی مملکت ۔The Ministry of Utmost Happiness‘‘ گزشتہ برس 2017 میں شایع ہونے کے بعد سے موجودہ لمحات تک، مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے، ہر چند کہ ہندوستان سمیت مغربی دنیا میں اس ناول کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، جبکہ پاکستان میں اس کی ستائش کا تناسب اردو کے ادبی حلقوں میں خاصا بلند ہے۔ بظاہر تو اس کی وجہ ناول کا حساس موضوع ہے اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں، انگریزی اور پھر اس کے اردو ترجمے کے معیار نے بھی ناول کو ادبی معیار تک پہنچ جانے کی نوید سنائی ہے۔ اس کا موضوع ’’کشمیر‘‘ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ناول، ثانوی پہلوئوں میں انسان کے داخلی جذبات، خواجہ سرائوں کے جبلی اور جنسی رجحانات، سماجی زاویے، استحصال کی مختلف شکلیں اور باہمی رویوں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔
ایک طرف اس ناول کے لیے، معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے بک ریویو سیکشن کا تعصب پر مبنی رویہ ہے، تو دوسری طرف برطانیہ میں خواتین کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈکے لیے اس ناول کو نامزد کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس ناول کا اردو ترجمہ بروقت شایع ہونے سے، اردو قارئین کی رسائی بھی اس ناول تک ہوگئی ہے، حیرت انگیز طور پر پاکستان میں انگریزی داں ادبی طبقے کی طرف سے اس کی اشاعت سے پہلے جس طرح کا شور و غوغا دکھائی دیا تھا، وہ بعد از اشاعت ٹھنڈا ہوتا دکھائی دیا ہے۔ اردو ادب کی دنیاسے، عہد حاضرکے اہم پاکستانی اردو ناول نگار مستنصر حسین تارڑ نے اپنے لفظوں میں یوں اس ناول نگار کو خراج تحسین پیش کیا ہے کہ’’ایک پاکستانی ناول نگارکی حیثیت سے اس بہادر اور غدار خاتون کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے دل کی ہر بوند میں بندھا تشکر کا ایک اور دل اس کے چرنوں تلے بچھاتا ہوں۔‘‘
ناول بارہ ابواب کے ڈھانچے پر محیط ہے، جن پر ہندسے اور عنوانات بھی درج ہیں۔ ان بارہ ابواب کے عنوانات کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ بوڑھی چڑیاں مرنے کے لیے کہاں جاتی ہیں، خواب گاہ، ولادت، ڈاکٹر آزاد بھارتیہ، دھیما تعاقب، بعد کے لیے چند سوال، مکان مالک، کرایہ دار، مس جبین اول کی بے وقت موت، بے پناہ شادمانی کی مملکت، مکان مالک اور گوہِ کیوم۔ اردو مترجم کا نام ارجمند آرا ہے، جو جامعہ دہلی میں اردو ادب کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ ناول میں مختلف اقتباسات، حوالے اور مغلظات کے استعمال سے ناول کی کہانی اور کرداروں کو مختلف رنگ میں رنگنے کی سعی بھی کئی گئی ہے، جس میں مصنفہ کافی حد تک اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ناول کا اردو ترجمہ، نثری لحاظ سے بہت معیاری ہے، با محاورہ زبان اور لفظیات کے درست استعمال نے اس ترجمے کو کافی حد تک اصل ناول کے قریب کر دیا ہے، جس کی وجہ ناول نگار کا اس ترجمے کے ہونے میں خود بھی عملی طور پر موجود ہونا ہے، جس کا تذکرہ ناول کے ترجمے میں تعارف والے حصے میں تفصیلی طور سے پڑھنے کو ملتا ہے۔
اس ناول کا موضوع بھارت کے زیر تسلط جموں کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم ہیں۔ ناول کی ابتدا قبرستان کے منظر نامے سے ہوتی ہے، پھر آگے بڑھیں تو دلی کی پرانی حویلی خواب گاہ کا تفصیلی تذکرہ آتا ہے، جہاں خواجہ سرا رہتے ہیں اور آفتاب نامی خود کو ان کے قریب محسوس کرتے ہوئے، ان کے گھرانے کا حصہ بننے کا خواہش مند ہوتا ہے، آخرکار وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہیں سے کہانی میں دلی کے بازار، مسجدیں، مزار اور دیگر روحانی احساسات اور کرداروں کا تذکرہ بھی اسے آگے بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ خواجہ سرائوں کی زندگی، ان کی خواہشات، محبتیں، روزگار، جنس کا علاج، اپنی تلاش سمیت کئی طرح کے واقعات سے ناول کی فضا بننا شروع ہوتی ہے۔
ناول میں مزید آگے دلی شہر میں ہونے والے دھرنوں کے بیچ ایک بچے کی ولادت، جبکہ پس منظر میںسیاسی و سماجی حرکات کو مفصل انداز میں قلم بند کیا گیا ہے۔ اسی باب میں بھارتی میڈیا کی اخلاقی زبوں حالی کو کھول کر بیان کیا گیا ہے، جس کو پڑھنے کے بعد، اس پر اپنے میڈیا کے ہونے کا خیال غالب آتا ہے۔ جمہوریت کے نام نہاد ہونے کے مستند حوالے بھی یوں بیان ہوئے ہیں کہ پاکستان میں معروف نعرے’’جمہوریت بہترین انتقام‘‘ کی بازگشت محسوس ہوتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک میں جمہوریت کے نام پر عوام سے انتقام ہی لیا جاتا ہے، یہ ناول ان رجحانات کی بہترین عکاسی کر رہا ہے۔ ناول میں کئی جگہ پاکستان کے حوالے بھی آتے ہیں۔ مرزا غالب سے معذرت کے ساتھ، ناول میں بیان کردہ کہانی کے مطابق، دونوں طرف سیاسی و سماجی طور سے بیمار کا حال اچھا نہیں ہے۔
کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی داستانوں کو کھول کر اس ناول میں بیان کیا گیا ہے۔ بھارتی فوج، بیوکریسی اور جمہوری حکومتیں جموں کشمیر میں کس طرح کاکھیل کھیل رہی ہیں، وہ ناول کے کردار بیان کررہے ہیں۔ کشمیریوں کا بھرپور احتجاج و ردعمل، شہادتیں، بہت سارا ان دیکھا اور ان کہا حال بھی اس ناول کا بیانیہ ہے۔ جہادی جماعتوں کی داخلی سیاست، کچھ پاکستانی عناصر سمیت بھارتی فوج کے کریہہ چہرے کے خدوخال باریکی سے بیان کیے گئے ہیں۔ بہت سارے شعری حوالے بھی ناول میںدرج ہیں، جن میں پاکستانی شاعر حبیب جالب کی شاعری سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
ناول تکنیکی اعتبار سے پختہ ہے، البتہ ناول کی بے باکی کہانی پر پوری طرح حاوی ہے، کہانی میں کئی جگہوں پر گالیوں نے کرداروں کی صورت اختیار کرلی ہے، کہیں انہی کرداروں کی زبان اور مکالمے، مختلف اشعار میں ڈھل گئے ہیں۔ غصہ بہت ہے، جس نے کہانی کے لوازمات کو اٹھا کر ادب آداب کی بالکونی سے باہر پھینک دیا ہے۔ اس کہانی کے کرداروں میں آفتاب (انجم)، جہاں آرابیگم، نموں گورکھ پوری، استاد کلثوم بائی، کوئے، ٹلو، ڈاکٹر آزاد بھارتیہ، ناگا، گارسن ہوبارٹ، موسیٰ، امریک سنگھ، مس جبین، پنکی، خدیجہ، صدام، جیسے کرداروں نے پوری کہانی کو باندھ کر رکھا ہے۔
ناول میں تہذیبی زبان نے چار چاند لگادیے ہیں، سفاک منظر بھی چاندنی رات کی مانند دکھائی دیتا ہے، اس تناظر میںا یک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔’’کوئی ایسا ٹور گائیڈ آس پاس نہ تھا، جو تلو کو بتاتا کہ کشمیر میں ڈرائونے خواب ہرجائی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مالک سے بے وفائی کرتے ہیں۔ آوارہ پن سے دوسروں کے خوابوں پر لد جاتے ہیں، کسی فصیل کو تسلیم نہیں کرتے، چھاپہ ماری کے بہترین فنکار ہوتے ہیں۔ کوئی فصیل، کوئی باڑ ان کوقابو میں نہیں رکھ سکتی۔ کشمیر میں ان ڈرائونے خوابوں کے ساتھ بس آپ ایک ہی کام کرسکتے ہیں کہ انہیں پرانے دوستوں کی طرح گلے لگا لیں اور پرانے دشمنوں کی طرح سنبھالیں۔‘‘
ارُوندھتی رائے نے 21سال قبل پہلا ناول ’’دی گاڈ آف سمال تھنگز ۔The God of Small Things‘‘ لکھا تھا، جس کو ادبی لحاظ سے بہت شہرت ملی تھی اور دنیا کا معروف برطانوی ادبی انعام’’بکرپرائز‘‘بھی دیا گیا تھا۔ اس کے بعد نان فکشن موضوعات پر مصنفہ نے بہت کچھ لکھا، جن میں مضامین اور کتابیں شامل ہیں، مگر فکشن کے تناظرمیں ان کایہ تازہ ترین کام ہے، جس کے بارے میں آج کل بہت بات ہو رہی ہے، اس عرصے میں ناول نگار نے متعدد بار اپنی گفتگو میں یہ اظہار بھی کیا، شاید وہ ناول نہ لکھیں، لیکن آخرکار وہ ایک بار پھرناول کی تخلیق کے تجربے سے گزری ہیں۔ اس ناول کی حساسیت کی وجہ سے انہیں بھارت میں سخت تنقید کا سامنا ہے، مگر بہرحال یہ ایک اہم ناول ہے،جس کو نظراندازنہیں کیا جا سکتا ہے۔
عالمی ادبی منظر نامے پر یہ ناول اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح آپ اپنے جمہوری رویوں کو ادبی رنگ میں پیش کر سکتے ہیں۔ دلی کی مادیت پرستی والی زندگی سے جموں کشمیر میں ہونے والی بربریت تک، ایک حساس ذہن رکھنے والے شخص کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ ایک ایسے سماج میں، جہاں ظلم کئی شکلوں میں موجود ہو، وہاں کس طرح ادیب اپنے طریقے سے ان جرائم کی ایف آر کاٹتا ہے، جو مورخ کے کام آئے گی۔ کسی پاکستانی ادیب کے لیے لازم موضوع کو ایک ہندوستانی ادیبہ نے اپنے لیے چن کر تخلیق کر دیا، اگر پاکستانی ادیبوں، محققین، صحافیوں اور قارئین کو ٹیکنالوجی زدہ زندگی کی مادہ پرست فضا سے فرصت میسر آئے تو اس ناول کو ضرور پڑھیں، جس میں جموں کشمیر کا گرم لہو اپنی پوری حدت اور حرارت کے ساتھ بہتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، اگر کوئی محسوس کرے تو۔۔۔۔۔