نفرت آمیز اور تقسیم کرنے والی نام نہاد جمہوری سیاسی جماعتوں سے عوام تھک چکی ہے اور دن بدن اپنی منزل سے دور ہو رہی ہے۔ وطن عزیز اس وقت غربت و بیروزگاری کی چکی میں پس رہا ہے ۔ روپے کی قدر ڈالر کی نسبت انتہائی سطح سے گر چکی ہے۔ ڈا لر کی قیمت 115 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ غریب شخص بمشکل دو وقت کی روٹی پوری کر سکتا ہے۔ غریب مزدوروں کا مہنگائی کے سبب اپنے بچوںکے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہے۔ غربت و افلاس جگہ جگہ ننگے پائوں رقص کرتی نظر آرہی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں حکمران شاہانہ گزر بسر کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے اقتدار سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جاہ جلال اور شان وشوکت سے بات بات پر پروٹوکول کا استعمال کرتے ہیں ۔ ان کے ہر کام میں جلالت کا رنگ جھلکتا ہے۔ چاہے ملک بیرونی قرضوں میں ڈوبتا چلا جائے۔ ہماری مجموعی قومی پیداوار کا برا حال ہے۔ کسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ مگر ہم اس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کر سکے۔ پاکستان سٹیل مل کئی سالوں سے بند پڑی ہے جس سے اربوں کا نقصان ہو رہاہے۔ پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) بھی اربوں کھربوں کا نقصان قومی خزانے کو پہنچا رہی ہے۔ ہمارے سیاست دان بس چاہتے ہیں کہ وہ شان و شوکت کے حامل نظر آئیں۔ اپنے اسی رنگ ڈھنگ اور انا پروری کو بر قرار رکھنے کے لئے یہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادتے رہتے ہیں۔ پاکستان بیرونی قرضوں کی دلدل میںاس قدر پھنس چکا ہے کہ نومولود بچہ بھی مقروض ہو چکا ہے۔ انٹرنیشنل مالیاتی اداروں سے یہ قرضے لے کر ملک کو سود اور غلامی کے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔
آج معاشرے کا ہر فرد اس بات کا قائل ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ہمارے ہر حکمران نے اپنے پیش نظر صرف ایک بات رکھی کہ عوام کو اصل حقائق سے دور رکھ کر ان کی آنکھوں میں دھول کیسے جھونکی جا سکتی ہے اور انہیں بے وقوف کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے حکمران و سیاستدان اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکانے میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی حکومت چھننے کے خوف میں مبتلا ہے تو کوئی کرسی ہتھیانے کے چکر میں تو کوئی کرسی بچانے کے چکر میں ہیں، سب کو اپنی اپنی فکر لاحق ہے۔ کسی کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔ کبھی بھی کسی نے نہیں سوچا کہ عوام کیا چاہتی ہے۔ کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے حکمران عوامی مسائل سے بے پرواہ ہیں اور غریب عوام کو دو وقت کی روٹی دینے اور رہنے کے لئے گھر دینے کے بجائے سڑکیں اور میٹرو بسیں بنا کر دے رہے ہیں۔
کاش! ہمارے حکمران خادم ہونے کے کھوکھلے نعروں کے بجائے حقیقی خادم بن کر دکھائیں تا کہ غریب عورتیں ٹرین کی پٹریوں پر بچوں سمیت خودکشی نہ کریں۔ گھر سے نکلتے ہوئے کسی کو خوف نہ ہو کہ وہ کہیں دھماکے میں مارا نہ جائے، کسی کو دو وقت کی روٹی کے لئے اپنی عصمت نہ بیچنی پڑے اور نہ کسی کو غربت سے تنگ آکر خود کشی کرنی پڑے۔
کاش! کوئی ایسا حکمران آئے جو ملک کو ایک ایسی نئی راہ پر لے آئے جہاں غربت نہیں خوشحالی ہو، جہاں تقسیم نہیں یکجہتی ہو، جہاں نفرتیں نہیں محبتیں ہوں، جہاں حکمران حقیقی معنوں میں عوام کا احترام کریں نہ کہ استحصال۔۔۔ کاش! وہ دن آئے۔۔کاش!