آج میں نے عجب ہی
منظر دیکھا
سرابوں کی دنیا
جہاں
جھوٹے وعدوں
محبت کے دھوکے
آس نراس
جینے مرنے کی
قسموں کے
ریشمی جال بنتی
مکڑیاں
لجلجے چہرے
سنہرے حسن کی
کھال پہن کر
تھرتھرا تی
ناچتی
مسکراتی ہیں
نفاق کے
کاروبار میں فائدہ
ہی فائدہ ہے
دبیز ریشم کی
آستینوں میں
مصلحت کے سانپ
چھپائے
تبلیغ جاری ہے
نماز افضل تریں ہے
خدائے واحد کو پوجو
مگر
وہ خود
با اختیار انسانوں کے سامنے
سجدہ ریز ہیں
زرو جواہر کے منبر پہ چڑھ کے
اور
لیمو زین کار
سے اترتے
دن رات
سادگی کا
سبق رٹتے ہوئے
سبز اور سفید
طوطے
بن چکے ہیں
بے اثر ہوتی صداؤں میں
اذان بلالی
کہیں نہیں ہے
بس کریہہ چیخ
باقی ہے
جو کہہ رہی ہے
انسانیت
مر چکی ہے
اسے
مذہب کی
صلیب سے اتارو
اور
ندامت کی قبر
میں
دفن کر دو
Leave a Reply