یورپی یونین کی اقتصادی صورتحال پانچ سال سے مشکل میں ہے۔ اس کے گہرے مطالعے اور علاج کیلئے کام کا آغاز کیا جارہاہے۔ وال اسٹریٹ کے رسالے نے سوئٹزرلینڈ کی ری (انشورنس) کمپنی کی ویب سائٹ کا حوالہ دیا اور اس مشترکہ منصوبے کو (اقتصادی) دماغوں کی میٹنگ” کہا ہے۔ لندن کے معاشی سکول اور سوئس ری کے تحقیقی کام سے مرکزی بینک کی پالیسیوں اور یورپی فلاح و بہبود کے نظام میں مشکلات دور کرنے پر کام ہوگا۔ یورپی معیشت عالمی فلاح و بہبود کیلئے 50 فیصد رقم فراہم کرتی ہے جبکہ اسکی آبادی دنیا کا صرف 8 فیصد ہے۔
بنیادی سوال مرکزی بینک کے کام اور مالیاتی استحکام سے متعلق ہے. مالیاتی بحران (2008 تا 2011) کے دوران اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی کے لئے مرکزی بینک نے مزید پھیلاؤ کا طریقہ اپنایا جس کیلئے اثاثہ جات بڑھائے گئے۔ بنکوں کے اثاثہ جات میں سب سے اہم سرمایہ کاری کیلئے دئیے گئے قرضے ہوتے ہیں۔ اس سے طویل عرصہ تک "سود” کی شرح کم رکھی گئی۔ مرکزی بینک قرضے زیادہ جاری کرتے ہیں۔ جبکہ اس سے اثاثوں میں دو طرح کے خطرات ہوتے ہیں۔ ایک تو شرحِ سود میں کمی یا زیادتی کا خطرہ جس سے بنک کو حاصل ہونے والا منافع یقینی نہیں رہتا تو دوسری جانب اثاثہ جات کی فوری فروخت سے قیمت کم ملتی ہے۔ جس سے ادائیگیاں مشکل ہوسکتی ہیں۔ طویل عرصہ تک یہی طریقہ کار اپنانے سے یورپی بنکوں کا منافع کم ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ یورپی معیشت کی ترقی 2007 میں 2۔ 7 (دو اعشاریہ سات) کی رفتار سے بڑھ رہی تھی جبکہ 2009 میں یہ منفی 3۔ 9 تک چلی گئی۔ بعد ازاں یہ بڑھکر 2017 میں 1۔ 9 (ایک اعشاریہ نو) تک پہنچ پائی ہے۔ معدودے چند ایک سالوں کے سن 2000 سے 2013 تک مہنگائی کا جن بھی 2 فیصد پر برقرار نہ رکھا جاسکا۔
سوئس (ری) اور لندن معاشی سکول پروجیکٹ کا دوسرا اور زیادہ اہم کام یورپ میں ساختی اصلاحات لانے میں ناکامی کو سمجھنا ہے۔ جس کی ایک وجہ ڈھیلی مالیاتی (مانیٹری) پالیسی ہے۔ پچھلے طویل عرصے سے مسلسل نوٹ چھاپنا، زیادہ قرض فراہم کرنا اور مالیاتی پھیلاؤ کا طریقہ اختیار کرنا ہی اندازِ عمل تھا۔ اس کے اثرات کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ اس اندازِ عمل سے یورپ کا سماجی ماڈل خطرے میں ہے. سماجی فلاحی سرگرمیوں کی 50 فی صد مالیاتی امداد میں عوامی پنشن، صحت کی دیکھ بھال کے اور عوامی تعلیم کے اخراجات شامل ہیں۔
اس کیلئے یورپی عوام زیادہ ٹیکس دیتے ہیں اور طویل عرصے تک خسارے کا بجٹ برداشت کرتے ہیں۔ جس سے فلاحی ریاست کا تصور برقرار رہتا ہے۔ بجٹ کے خسارے کا نتیجہ یہ ہے کہ مستقبل کی نسلوں کو زیادہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ایسی حکومتی مالیات کا انتظام سخت مشکل ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد عوامی مالیات میں ساختیاتی (سٹرکچرل) اصلاحات کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ سخت مالیاتی پالیسی اپنانے سے سماجی سہولیات میں اضافے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس کہانی کی بنیاد یہ ہے کہ 2012 کے بعد سے یورپی مرکزی بینک کی ڈھیلی مالیاتی پالیسیوں کی بناء پر ساختیاتی اصلاحات کے لئے امکانات کم ہوگئے ہیں۔
ہمیں بطور پاکستانی اور مسلمان "اقتصادی اذہان کی ملاقات کے منصوبہ” سے سبق سیکھنا ہے۔
اس صورتِ حال میں اخلاقی خطرات بھی ہیں. اب حکومتوں کو مہنگے قرضے حاصل ہوتے ہیں جس میں سودابازی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس سے حکمران ڈرتے ہوئے مزید قرضے لینا بند کردیتے ہیں۔ جس سے ملکی معیشتوں میں مزید اصلاحات لانے کا عمل سست پڑجاتا ہے۔ چونکہ یورپ بھر میں ایک ملی جلی سی صورتِ حال ہے۔ خاص طور پر یورپ اور باقی علاقوں کا موازنہ کیا جائے تو مختلف حالات کو سمجھنے اور ان میں بہتری کے امکانا ت پر کام کیا جاسکتا ہے۔ ساختیاتی اصلاحات کا عمل دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے۔
ساختیاتی اصلاحات کا مقصد چار میدانوں میں تبدیلیاں لانا ہے۔ لیبر مارکیٹ، اقتصادی ترقی، فلاح و بہبود اور عوامی مالیات۔ یورپ میں مزدورانہ بازاروں کو مزید سازگار اور ذمہ دار بنانامقصود ہے۔ خدمات کی آزادانہ تجارت اور ان میں مقابلے کا فروغ کرنا شامل ہے۔ کاروباری ماحول کو مثالی بنانا بھی اسکا ایک مقصد ہے۔ ایجادات میں اضافہ، عوامی محصولات کے نظام کو معیاری بنانا، اور فلاحی ریاست کے تصور کو عام کئے رکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک اصلاحاتی عمل اگلے پانچ سال سے زائد عرصے میں جاری نہ کیا جاسکا تو مستقبل میں ملکی پیداوار کیلئے مسائل ہونگے۔ اصلاحات میں تعطل سے معاشی ترقی کی بنیادوں پر وار ہوگا۔ عوامی فلاح و بہبود کے نظام پر زد پڑے گی۔ اس سے یورپ کے معاشی دیو کو مقابلہ درپیش ہوگا۔
اوپر ذکرشدہ حقائق کی روشنی میں، تحقیق کی ضرورت واضح ہے۔ یہ سمجھنا لینا ہوگا کہ مالیاتی پالیسی کس طرح معیشت پر اثر انداز ہورہی ہے۔ طویل عرصے (پانچ سال) سے بھی لمبی مدت تک توسیع پذیر مگر ڈھیلی پالیسی میں کیا شامل ہے؟ اس میں شرحِ سود،سرکار کو دئیے گئے بھاری قرضوں کی ذمہ داریاں اور مرکزی بنکوں کے پاس رکھے گئے محفوظہ کی شرح میں کمی شامل ہیں۔ ان سب کا مطلبب نئے نوٹ چھاپنا ہے۔ مزید نوٹ فراہم کرنے سے ہی تمام مالیاتی بیماریاں نمودار ہوتی ہیں۔ لیکن مرکزی بینکوں کے پاس یہی ایک طریقہ ہے جس سے وہ مالیاتی سست روی یا بحران کا علاج کرتے ہیں۔ شرحِ سود کم رکھی جاتی ہے تاکہ کم خرچ پر سرمایہ کاری فراہم کی جائے۔ جس سے قوم اشیاء کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور سرمایہ کاری بڑھ جاتی ہے۔ یوں معیشت خطرے سے باہر آجاتی ہے۔ لیکن شرحِ منافع کم ہونے سے دوسری جانب اندرونِ ملک مالی سرمایہ کاری اور اثاثہ جات میں منافع کم ہوجاتا ہے۔ ملکی بانڈ، شہری جائیدادوں، سٹاک مارکیٹ اور دیگر اثاثوں میں سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے. اس سے مالیاتی اکاؤنٹ خراب ہوسکتا ہے. یہ ملکی کرنسی کی طلب کو مزید کم کرتا ہے اور اسی طرح ملکی کرنسی میں تبادلے کی قیمت (ایکسچینج ریٹ) کو گرادیتا ہے۔ لہذا مالی بحران کے علاج کے لئے ضروری مالیاتی اکاؤنٹس میں طویل مدتی کرنسی کی قیمتوں میں کمی اور کم سرمایہ کاری کا سبب بنتا ہے۔ جبکہ یہی تو معیشت کی بنیادی طاقت ہیں۔ اس نقصان کا علاج آسانی سے نہیں کیا جاسکتا. جبکہ اس پالیسی کے برعکس مالیاتی توسیع کا انداز اپنانا مرکزی بنک کیلئے مزید مشکل ہے۔ اس کے اپنے مخصوص مسائل ہیں۔ خاص طور پر یہ بحران کم نہیں کرسکتا۔
سوئس ری (انشورنس) ڈیڑھ سوسال سے کام کررہی ہے۔ جس نے 2016 میں 33 ارب ڈالر تک پریمئیم کا کاروبار کیا۔ اس کا مقصد "دنیا کو بحران کے مقابل زیادہ مستحکم بنانا ہے”. اس لحاظ سے یہ ایک تزویراتی تحقیق ہے جس میں لندن اسکول آف اکنامکس کے ساتھ کام کرنے کی اہم پہل براعظم یورپ کے معاشی حصہ داروں کو مالیاتی حساب کتاب کے ذریعے مالی امداد فراہم کرنے کے علاوہ تعلیمی شعور کی تعقیب میں مزید سنجیدہ جدوجہد دیگی۔ سوئس (ری) گروپ کا مقصد خطرے میں مدد کرنا ہے جو انسان کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ اس سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس طرح مستقبل کے خطرات کو کم کرنے کے دوران معاشی ترقی کو مہمیز دیجاتی ہے۔
انشورنس والوں کو تحفظ دینا سوئس (ری) کا کاروبار ہے۔ اس سے تجارت کرنے والوں کو حفاظتی آڑ فراہم کرنے والے انشورنس گروہوں کو تحفظ ملتا ہے۔ یعنی کاروبار کو دگنا تحفظ دیا جاتا ہے۔ لیکن اسلام اس موقع پر کچھ سوالات اٹھاتا ہے۔ کیونکہ اس تمام معاملے میں سود موجود ہے جو کہ حرام ہے۔ قریبا تمام مالیاتی نظام ایسی قرآنی تعلیمات کے برعکس کام کرتا ہے جن میں سود اور غرر (دھوکے کا باعث بننے والی غیر یقینی صورتحال) سے اجتناب کا حکم ہے۔ غرر (دھوکے کا باعث بننے والی غیر یقینی صورتحال) کے دوران میں تحفظ کیلئے اسلام کا اپنا ایک مکمل نظام موجود ہے۔ اس میں تکافل بھی شامل ہے۔ ایسے میں کاروباری مقاصد اور منافع کے حصول کیلئے کیلئے ری انشورنس کا نظام مزید غیراسلامی ہے۔ انسانوں کی فلاح کی خاطر دیا جانے والا تحفظ جس سے تاجروں کی پشت پناہی کرنے والوں کو مدد ملے، اسے مکمل طور پر صاف ستھرا اور ذاتی مقاصد سے بالاتر ہونا چاہیئے۔
ہمیں بطور پاکستانی اور مسلمان "اقتصادی اذہان کی ملاقات کے منصوبہ” سے سبق سیکھنا ہے۔ یورپ میں معاشی ہلچل اصلاحات کو مؤخر کردیتی ہے جس سے فلاح و بہبود بھی متاثر ہوگی۔ لہٰذا براعظم یورپ کی سماجی پالیسی کو نقصان پہنچے گا. یہ سنگم جہاں معاشی و سماجی جہات ملیں، بنیادی طور پر ایک ثقافتی دائرے کا سوال بن جاتا ہے۔ ثقافت ایک اعلی اور اونچی جہت ہے. اس مرحلے میں تجویز ہے کہ (اس مسئلہ کی) ثقافتی بنیادوں پر نئے پیرائے میں غور کیا جائے بجائے اس کے کہ معاشی مساوات کو دوبارہ سے سادگی کیساتھ حسابی انداز میں اخذ کرلیاجائے۔ یہاں میں یہ مان لیتا ہوں کہ معیشت دانوں کے پاس دماغ ہیں اور یہ اذہان معاملے حل کرسکتے ہیں بشرطیکہ انہیں جواز دیاجائے کہ وہ افق سے دور دیکھنے کی کوشش کریں۔ خصوصا ایسے میں کہ معاملات کینز کے محدود مدتی دائرے سے پرے ہیں اور مسائل معاشی حدود سے آگے کے ہیں جبکہ علاقہ کسی ایک ملکی حد سے بھی آگے کا ہے۔