"ضمیر انسان کے اندر خدا کی پوشیدہ مگر واضح آواز ہے۔ "محمد علی باکسر
میں زندہ ہوں اس لۓ لکھ رہی ہوں۔ ایک نظر اپنے اطراف میں ڈالوں تو حقائق اس کے برعکس ہیں۔ احساس اور شعور سے ٰ ماحول ظالم معاشرہ، بیمار سوچ اور بےحس رویے۔ زندگی صرف سانس لینے کا نام رہ گئی۔
ایک نوجوان چوبیس سالہ انجنیئر نے بےروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ تحقیق سے معلوم ہوا تعلیم یافتہ اورمہذب گھرانہ سے تعلق تھا۔ والدہ ایک مستند سکول کی پرنسپل ہیں۔ فہم قاصرہے کہ کب، کیا اور کہاں کمی رہ گئی۔
لاہور کے مشہور گرامر سکول کی ہونہار اٹھارہ سالہ طالبہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئ۔ والدہ کا بیان ہے سکول پرنسپل، اساتذہ کا بےجا دباؤ تھا کہ تمھارا داخلہ نہیں بھیجیں گے- حالانکہ طالبہ انتہائی ذہين تھی دماغ ماؤف کہ قوم کے معمار ادارے موت بانٹ رہے ہیں۔
ایک سروے رپورٹ سامنےآئی جس کا ذکر ٹی وی اور سوشل میڈیا پرخوب ہوا کہ پرائیوٹ سکول بالخصوص اسلام آباد میں منشیات کا کھلے عام استعمال اورخريد و فروخت ہوتی ہے۔ سگریٹ نوشی، شیشہ اورڈانس پارٹی بھی تعلیمی سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔ پرائیوٹ مشہورتعلیمی ادارے ہر طرح کی بےراہ روی کا گڑھ بن چکے ہیں۔ اساتذہ بھی اس گھناٶنے کاروبار کا حصہ ہیں- عقل پوچھتی ہے یہ ہی اندھیرنگری ہے۔
پورا معاشرہ جہاں دوسرے مسائل کا شکار ہے وہاں ہر شخص ایک بےنام اذیت اوردرد کی کیفیت میں ہے اور اس کا ادراک بھی نہیں ہے۔
خانگی جھگڑوں کے یہ واقعات جن کی اصل وجہ نفسیاتی مسائل ہیں ابھی اخبارات کی زینت بہت ذیاده نہیں بنے مگر کسی فیملی کورٹ یا یونین کونسل کا ریکارڈ چیک کریں تو اندازہ ہوگا شادیاں دنوں میں ختم ہورہی ہیں۔ بیشترفریقین کا تعلق بظاہر مذہبی، مہذب، امیر وکبیرسیاسی خاندانوں سے ہے۔ مرد حضرات ہرنئے تجربے کی بنیاد ایک طلاق پر رکھ رہے ہیں۔ بیبیاں بھی اس دوڑمیں پیچھے نہیں ہیں۔ ایک نہیں، تین چاربچوں کے بعد بھی مردوزن مطمئن نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے جواولاد وجود میں آتی ہے، اس کا الميہ الگ ہے۔ ذہنی ہم آہنگی کو بنیاد بناکرہم طلاق کو معمولی اہميت دے رے ہیں۔ خاندان کے باقی افراد کا کردار ثالثی کی حیثیت سےکم اپنے ذاتی مفاد سے ذیاده وابستہ ہوتا ہے- سوال ذہن میں آتے ہیں کہ کوئی تربیت، تعلیم ان پر اثرانداز کیوں نہ ہو سکی۔ یہ شترب ےمہار معاشرہ ہے جہاں اخلاقی اورمعاشرتی اقدار پامال کرنے کی کوئی سزا نہیں ہے؟
پورا معاشرہ جہاں دوسرے مسائل کا شکار ہے وہاں ہر شخص ایک بےنام اذیت اوردرد کی کیفیت میں ہے اور اس کا ادراک بھی نہیں ہے۔ جن کو ہے وہ اس کرب سے نکلنے کے بجائے خود کو شراب، جوا، عورت یا پھر بےہنگم فیشن میں ڈبو لیتے ہیں۔ ترقی اور تباہی کی تعریف ایک سی لگتی ہے۔ معذرت کے ساتھ نتائج جو ایک سے ہیں۔
جس تکلیف دہ تجزیہ کا نتیجہ یہ ہے کہ بہ حیثیت معاشرہ ہم ایک زخمی روح اور اپاہج سوچ رکھتے ہیں۔ قطعءنظر اس کے کتنی مادی ترقی ہم نے کرلی ہے۔
آپا بانو قدسیہ مرحوم کہتی تھیں کہ محبت اور مروت سے انسانوں میں رابطہ پیدا ہوتا ہے۔ آج اس کے لئے وقت نہیں ہے۔ لوگ انسانوں کی بات کرنے کے بجائے انفارمیشن کی بات کرتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے ۔Professional Excellence کی دوڑ میں ہم بے روح اولاد جوان کررہے ہیں۔
جس تکلیف دہ صورتحال کا اعادہ اس تحریر میں کیا گیا ہے وہ اس نتیجہ تک لاتی ہے کہ بہ حیثیت معاشرہ ہم ایک زخمی روح اور اپاہج سوچ رکھتے ہیں۔ قطعءنظر اس کے کتنی مادی ترقی ہم نے کرلی ہے اور معاشی طور پر عورت کوجتنا مرضی خود مختار ہم نے بنالیا ہے۔ افسوس! ہم اپنی نسل کو تیار نہیں کرسکے کہ جب تم ڈگری لو گے اور نوکری نہ ملے تو کیا کرنا ہے؟ جب تمھارے بچے کو کنیسر ہوجائے تو کیا کرنا ہے؟ نوکری چھوٹ جائے تو کس طرف دیکھنا؟ چاروں طرف جب خوبصورت لڑکیاں ہوں تو ایک کے ساتھ کیسے باوفا رہنا؟ جب طلاق ہو جاۓ تو کس طرح زندہ رہنا؟ اگرایکسیڈینٹ میں معذور ہو جاٶ تو فعال زندگی کی طرف کیسے آنا؟ خواہشات اور عدم تحفظ کی یلغار ہو تو کردار کی پختگی تک کیسے پہنچا جاۓ؟ بےاولادی کی آزمائش آجاۓ تو خیر و خوشی بانٹنے کی طرف کیسے جانا؟ معاشرتی ناہمواریوں اورمصیبتوں کو کیسے ڈیل کرنا؟ کس ہتھیار سے حالات کا مقابلہ کرنا ہے؟ ہمارے نصاب کا حصه یہ علم ضرور ہونا چایۓ۔ ایسا علم کی جو روحانی اور قلبی سکون دے سکے۔ اس کی بنیاد ہونی چایۓ ففروا الیٰ اللہ
ترجمہ ً“پھر اللہ کی طرف دوڑ۔ فلاح اور کامیابی کا یہ سچا تصوران کی سوچ کوایسی جلا بخش دے کہ وہ روح کے ہرزخم کا مرہم خود تلاش کر سکیں۔ ذہنی انتشا، دباٶ، مختلف ذہنی امراض کا شعورعام کریں۔ آگے بڑھیں لوگوں کو حوصلہ دیں۔ ذہنی امراض اور بیمار رویوں کاعلاج بہت ضروری ہے۔ یہ پرسکون زندگی کی روح ہے۔ قیمتی جانوں اوررشتوں کو بچائیں۔ اپنی ذاتی ذمہ داری نبھائیں۔ اس کے پیسے نہیں لگتے۔ میں زندہ ہوں اس لۓ لکھ رہی ہوں۔ یہ میرے اندر کے زخموں کا مرہم اورروح کی روشنی ہے۔